خوش رہنا سیکھیں؟

ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے چہروں پر ہمیشہ بارہ ہی بجتا ہے ۔ کبھی ان کے چہروں پر خوشی کے آثارنظر نہیں آتے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اللہ رب العزت نے اس شخص کو زمین پر دکھوںکا وارث بنا کر بھیجا ہے ۔ ایسے لوگ خود تو پریشان ہوتے ہی ہیں یہ اپنے ساتھ ساتھ اوروں کو رنجیدہ اور کبیدہ خاطر بنا دیتے ہیں۔ پھر تو ایسا شخص رشتہ بنانے کے بجائے رشتہ توڑنے میں زیادہ ماہر ہوتے ہیں ،چونکہ وجہ صاف ظاہر ہے جو شخص خود خوش اور ہشاس بشاس نہ رہتا ہو وہ اوروں کو کیا خوشی کے لمحات فراہم کریں گے ۔لوگ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے رابطے میں آنے سے کتراتے ہیں، انھیں یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ شخص مجھے بھی رنجیدہ نہ کردے ۔ میرا ایک دوست ہے منٹوکلی ، میں ان سے جب بھی ملتا ہوں ہر وقت اسے پریشان حال ہی دیکھتا ہوں ، دریافت کرنے پر نصیحتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔فرماتے ہیں” یہ دنیا فانی ہے ، ہنسی خوشی ایک خوشنما فریب ہے ، موت کو یاد رکھا کرو ، کبھی ہنسی نہیں آئے گی، ایک دن ہم سب کو اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جانا ہے ، ساری کی ساری خوش گفتاریاں اور ہنسی خوشی کے لمحات یہیں رہ جائیں گے ۔ “ بھئی یہ فلسفہ تو بہت پرانا ہے ۔ لیکن موت کو یاد کرتے کرتے کل کے بجائے آج مر جائیں ۔ 
میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ ہر وقت ، ہر آن مسکرا تے ہی رہئے ، قبرستان ہو یا بازار ہنسی کی کلکاریاں ماریے ۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ قبرستان کو قبرستان سمجھئے ، دوستوںکی محفل کو خوش گفتاری کی محفل اور بازار کو بازار تاکہ ہمارا سب سے مل جل کر رہنا کامیاب ہو جائے ۔ کسی کے چہرے پر مسکان لانے سے قبل اپنے چہرے کو خوشحال بنانے کی خوش کیجیے ۔ کسی شاعر محترم کا قول ہے کہ اگر زندہ ہو تو زندہ دکھو بھی ۔