نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم اخلاق

ماہرہ اخلاق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے سب سے بڑے محسن اور کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ بنی نوع انسانی کے لئے معلم اخلاق کے طور پر نمودار ہوئے اپنی بعثت کا مقصد کچھ اس انداز میں بیان فرمایا :
”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“
آپ کے بلند اخلاق کے متعلق قرآن کچھ ان الفاظ میں گویا ہے :
”انک لعلی خلق عظیم “
قرآن و حدیث کی ان دونوں شہادتوں کی روشنی میں حیات نبی کا مشاہدہ کیا جائے تو آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں سے خالی نہیں ہے گھر کی زندگی یا سماج کا دائرہ ۔ مسجد کا گوشہ ہو یا جنگ کا میدان ، خلوت کا سناٹا ہو یا جلوت کا ہنگامہ غصہ کی کیفیت ہویا فرحت و انبساط کی کسی بھی حال میں آپ اخلاقی قدروں کی تعلیم اور ان پر خود عمل پیرا ہونے سے لمحہ بھر کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے ۔
اجالا ہی اجالا ہے حیات رحمت عالم
درخشاں ہی درخشاں ہے کوئی پہلو ہو سیرت کا
انسان کی زندگی میںبہت سے ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کس طرح سے بلند اخلاق کو قائم رکھ سکتا ہے لیکن آپ کی زندگی کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نظر نہیں آتاجبکہ آپ اخلاقی قدروں سے ذرا بھی پیچھے اترے ہوں یا آپ کے اعلیٰ اخلاق پر کوئی دھبہ لگا ہو ۔ آپ نے زندگی کو اخلاقی قدروں سے مزین کرنے کی ہمیشہ تاکید کی ۔ آپ نے فرمایا : حسن اخلاق سے بڑھ کر مومن کی میزان میں کوئی عمل نہیں ہوسکتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع و انکساری کی تلقین فرمائی، دوسروں کو برے القاب سے پکارنے کی ممانعت فرمائی ۔ سچ بولنے کی تلقین کی اسکے ساتھ ساتھ ایفائے عہد کی تلقین کی اور عہد شکنی کو منافق کی علامت قرار دیا ۔حسد کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ: حسد سے بچو حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو اور” من حسن الاسلام المرءترکہ مالا یعنیہ “کہہ کر مومن کو بے جا اور فضول باتوں سے منزہ و مبرہ قرار دیاایک طرف جہاں آپ نے صبر کو نصف ایمان بتایا تو وہیں دوسری طرف تقویٰ اور پر ہیز گاری کو اخلاق و اعمال کی جان و روح قرار دیا ۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار قریش کو معاف کرکے عفو و درگز کی ایسی مثال پیش کی جس کی نظیر دنیا آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
فتح مکہ کو ذرا گہری نظر سے دیکھئے
یہ تو ہے اخلاق کی فتح مبیں تلوار پر
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقیات کی تعلیم کے سلسلہ میں کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا ، چھوٹوں پر شفقت ، بڑوں ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍکا احترام ، والدین کی خدمت و تعظیم ایثار و سخاوت ، ظلم و جارحیت سے نفرت ، قول و عمل میں توازن اور ہر موقع پر انصاف کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنا یہ وہ تمام اخلاقی پہلوہیں جن پر عمل پیرا ہونے کو جنت میں لے جانے کا راستہ قرار دیا ۔
لیکن اگر آج انسانیت کا جائزہ لیا جائے و وہ حال زار سامنے آتا ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہورہی ہے، جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ ہر طرف دولت و اقتدار کی ہاتھا پائی ہے ، سچائی اور ایمان داری سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ، انصاف سے دور دور تک کوئی ناطہ نہیں ، ایثار و سخاوت جیسے الفاظ تو بے معنیٰ ہو کر رہے گئے ہیں ، ہمارا معاشرہ خود غرضی کا پیکر نظر آتا ہے ۔
اس وقت پوری نوع انسانی کسی اخلاقی انقلاب کی منتظر ہے اور یہ اخلاقی انقلاب بہت آسانی سے برپا ہو سکتا ہے اگر امت محمدیہ اپنی قدر و قیمت پہچان لے اور اخلاق کی اس متاع گراں مایہ کو جو اس کے سینے میں پوشیدہ ہے حرز جاں بنا لے ۔
بس اک آئینہ ہے اخلاق و کردار محمد کا
اگر بگڑی ہوئی صورت تمھیں پھر سے بنانی ہے
٭٭٭٭